Ariel
By Sylvia Plath
Stasis
in darkness.
Then
the substanceless blue
Pour
of tor and distances.
اندھیرے میں سکوت ہے اور پھر بے وجود نیلے رنگ کی روشنی
پہاڑ اور فاصلے عیاں ہوتے چلے جاتے ہیں(
اس نظم میں ایک عورت اپنی پریگنینسی کے
احساسات کو شاعری کی زبان میں بیان کرنے کی کوشش کر رہی ہے سپرم کا یہ سفر عورت کے رحم میں اندھیرے
میں شروع ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ روشنی
یعنی زندگی کی طرف رواں دواں ہوتا ہے)
God’s
lioness,
How
one we grow,
Pivot
of heels and knees!—The furrow
اے
میرے ایریل گھوڑے تُم خدا کی شیرنی ہو ہم ایک جسم کی ماند ہیں ہم ایک کھیتی کی طرح
ہیں جس میں بوئی ہوئی فصل ہی آگے بڑھتی ہے
Splits
and passes, sister to
The
brown arc
Of
the neck I cannot catch,
(
ماں کے رحم کے اندر نشونما پانے والا بچہ
اپنی ماں کے وجود کا ہی ایک حصہ ہے اُسی خوراک پر پل رہا ہوتا ہے جو خوراک
اُس کی ماں کی ہوتی ہے پھر ایک پراسس ہوتا
ہے اور زندگی سے ایک نئی زندگی جنم لیتی ہے
Nigger-eye
Berries
cast dark
Hooks—
جب ایک گھڑ سوار اپنے گھوڑے پر رات کی تاریکی میں محو سفر
ہوتا ہے تو اُسے کسی حبشی کی سیاہ آنکھوں
کی طرح یہ تاریکی چمکدار محسوس ہوتی ہے
اور اسی چمک میں شاعرہ کو سیاہ رنگ کی
سٹرابری نظر آتی ہے جس کو بچے اپنے کانٹوں
کے ذریعہ اُتارتے ہیں
Black
sweet blood mouthfuls,
Shadows.
Something
else
اس
میٹھے رس کے احساس سے اُس کے مُنہ میں پانی بھر آتا ہے ان راستوں پر چلتے چلتے
کُچھ شاخیں ناخنوں کی طرح اُس کے چہرے کو زخمی کر دیتی ہیں
Hauls
me through air—
Thighs,
hair;
Flakes
from my heels.
کوئی
غیر مرئی مخلوق اسے اُپر درخت کی جانب اُٹھا لیتی ہے شاعرہ کا پورا جسم اُپر اُٹھ
جاتا ہے اس کے جسم پر پڑے ہوئے برف کے سفید گالے اس کی ایڑیوں سے نیچے گرتے ہوئے
محسوس ہوتے ہیں
White
Godiva,
I unpeel—
Dead
hands, dead stringencies.
شاعرہ گودیوا دیوی کو پُکارتی ہے اور اپنے سُن ہاتھوں سے اپنے سُن احساسات کو
دبانے کی کوشش کرتی ہے
And
now I
Foam
to wheat, a glitter of seas.
The
child’s cry
وہ
محسوس کرتی ہے کہ اس کے جسم سے کوئی جھاگ نما چیز خارج ہو رہی ہے جسم سے نکلنے
والی یہ صدا جیسے سامنے تاریکی کی دیوار میں گُم ہو جاتی ہے
Melts
in the wall.
And I
Am
the arrow,
وہ
اپنے آپ کو کمان سے نکلا ہوا ایک تیر سمجھتی ہے یا وہ شبنم جو درخت کے پتوں سے گر
کے زمین میں
The
dew that flies
Suicidal,
at one with the drive
Into
the red
Eye, the cauldron of morning.
جذب
ہو جاتی ہےاُس کا گُھڑ سواری کا یہ انداز اپنے اندر خود کُشی کا انداز لیے ہوئے ہے
یہ دردِ زہ اس کے لیے کسی مشقت سے کم نہیں ہے
No comments:
Post a Comment